إعدادات العرض
”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید و فروخت کی بولی میں قیمت بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے…
”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید و فروخت کی بولی میں قیمت بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔ اے اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی بن جاؤ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : ”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید و فروخت کی بولی میں قیمت بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔ اے اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہ کرے، اس کو بے سہارا نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ سمجھے۔ تقویٰ یہاں ہے۔" اور آپ ﷺ نے یہ الفاظ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمائے۔ "کسی بھی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ۔ہر مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdî Português සිංහල Tiếng Việt অসমীয়া Kiswahili Nederlands ગુજરાતી Magyar ქართული Română ไทย తెలుగు मराठी ਪੰਜਾਬੀ دری አማርኛ Malagasy پښتو ភាសាខ្មែរ ಕನ್ನಡ Lietuvių Македонскиالشرح
اللہ کے نبی ﷺ نے ایک مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کی ہے اور اس کی کچھ ذمے داریاں اور آداب بیان کیے ہيں۔ مثلا : پہلی وصیت : ایک دوسرے سے حسد نہ کرو کہ ایک دوسرے کی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنے لگو۔ دوسری وصیت : اگر سامان خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تو بیچنے والے کا فائدہ یا خریدنے والے کا نقصان کرنے کے لیے اس کی قیمت نہ بڑھاؤ۔ تیسری وصیت : ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ بغض نام ہے کسی کا برا کرنے کے بارے میں سوچنے کا۔ بغض محبت کی ضد ہے۔ البتہ اللہ کے لیے بغض اس سے مستثنی ہے۔ اللہ کے لیے بغض رکھنا واجب ہے۔ چوتھی وصیت : ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو۔ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ روا نہ رکھو کہ تم اپنے بھائی سے منہ موڑو، اعراض کرو اور قطع تعلق کر لو اور وہ بھی تمھارے ساتھ ایسا ہی کرے۔ پانچویں وصیت : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی فروخت پر فروخت نہ کرے۔ مثلا جب کوئی شخص کسی سے کچھ خرید چکا ہو، تو اس سے یہ نہ کہو کہ میں اس سے کم قیمت میں اسی طرح کا سامان یا اسی قیمت پر اس سے بہتر سامان دے دوں گا۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ایک جامع وصیت کی اور فرمایا : مذکورہ منع کردہ امور سے ایسے دور رہو، آپس میں اس طرح محبت، نرم روی، شفقت، ملاطفت، نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے تعاون، صاف دلی اور ہر حال میں خواہی کا معاملہ کرو کہ بھائی کی طرح دکھائی دو۔ اس اخوت کے کچھ تقاضے بھی ہيں، جیسے : اپنے مسلمان بھائی پر ظلم اور دست درازی نہ کرے۔ جب کسی مسلمان بھائی پر ظلم ہو رہا ہو اور آدمی اس کی مدد کر سکتا ہو اور اسے ظلم سے بچا سکتا ہو، تو اسے اکیلا اور بے سہارا نہ چھوڑے۔ اسے حقیر و کم تر نہ جانے اور اسے ہیچ نظر سے نہ دیکھے۔ یہ رویہ دراصل دل میں موجود کبر کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ تین بار بتایا کہ تقوی دل کے اندر ہوا کرتا ہے۔ تقوى، جس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی حسن اخلاق کا پیکر ہو اور اللہ کا خوف اور اس کا دھیان رکھے، اگر وہ کسى کے دل میں جاگزیں جائے تو وہ کسی مسلمان کو حقیر نہیں جان سکتا۔ انسان کے برا اور بد اخلاق ہونے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے، جو دل میں موجود کبر و غرور کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے پیچھے مذکور باتوں پر مہر لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون حرام ہے، نہ اسے جان سے مار سکتا ہے، نہ زخمی کر سکتا ہے اور نہ مار پیٹ کر سکتا ہے اور نہ کوئى دورسى جسمانی اذیت دے سکتا ہے۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام ہے، اسے ناحق لے نہیں سکتا۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو بھی حرام ہے، اس کى ذات پر یا اس کے حسب نسب پر زبان درازی نہیں کی جا سکتی۔فوائد الحديث
ایمانی اخوت کے سبھی تقاضوں پر عمل کرنے کا امر وحکم اور اس کے منافی اقوال و اعمال کے ارتکاب کی نہی وممانعا۔
تقوی کی بنیاد دل میں موجود اللہ کی معرفت، اس کى خشيت اور اس کا دھیان ہے۔ اسی تقوی کے نتیجے میں نیک اعمال وجود میں آتے ہیں۔
ظاہری انحراف دل کے تقوے کی کم زوری کی دلیل ہے۔
اپنے قول یا فعل سے کسی مسلمان کو کسی طرح کی اذیت دینے کی نہی۔
کوئی مسلمان دوسرے کی طرح بننے کی تمنا کرے، تو یہ حسد کے دائرے میں نہیں آتا، جب تک اس میں دوسرے کے پاس موجود نعمت کے زائل ہونے کی تمنا شامل نہ ہو۔ دوسرے کی طرح بننے کی تمنا کو رشک کہا جاتا ہے، جو جائز ہے اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
انسان فطری طور پر اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ کوئی کسی کام میں اس سے آگے بڑھ جائے۔ ایسے میں اگر وہ دوسرے کی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرے، تو یہ حسد ہے، جو کہ مذموم ہے۔ لیکن اگر اپنے اندر اس سے آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرے، تو یہ رشک ہے، جو جائز ہے۔
کسی مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرنے میں خریدار کو یہ بتانا داخل نہیں ہے کہ اس نے خریداری میں بڑا دھوکہ کھایا ہے۔ یہ تو خیرخواہی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ نیت اپنے مسلمان بھائی کی خیر خواہی ہو، بیچنے والے کو نقصان پہنچانا نہيں۔ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرنا اس وقت مانا نہيں جائے گا، جب تک دونوں خریدنے اور بیچنے پر راضی نہ ہوئے ہوں اور قیمت متعین نہ ہوئی ہو۔
اللہ کے لیے رکھا جانے والا بغض اس حدیث میں منع کردہ بغض میں شامل نہیں ہے، بلکہ یہ واجب اور ایمان کی ایک مضبوط ترین کڑی ہے۔