اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسےتمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو

اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسےتمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ اللہ تعالی نے فرمایا : "اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسےتمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت سے نواز دوں۔ لہذا تم مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں۔ لہذا تم مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھانا دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو، سواۓ اس کے جسے میں لباس پہناؤں۔ لہذا تم مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔ لہذا تم مجھ سے بخشش مانگو۔ میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کی رسائی مجھے نقصان پہنچانے تک نہیں ہو سکتی کہ تم مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہو سکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے بعد کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے بعد کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات, تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل جیسے ہوجائیں، تو اس سے میری سلطنت میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے بعد کے لوگ، تمھارے انسان اور تمھارے جنّات ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور سب مجھ سے مانگیں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب کردہ چیز دے دوں، تو اس سے میرے خزانوں میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوگی، جتنی کمی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں شمار کر رہا ہوں اور پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ لہذا جو شخص بھلائی پائے، وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے علاوہ پائے، وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔”

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور اسے اپنی مخلوق کے بیچ بھی حرام قرار دیا ہے، لہذا کوئی کسی پر ظلم نہ کرے۔ سارے انسان حق کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہيں، سوائے اس کے جسے اللہ حق کا راستہ دکھائے اور حق کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ جو اللہ سے حق کے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتا ہے، اسے اللہ یہ توفیق عطا کرتا ہے۔ سارے انسان اپنی تمام ضرورتوں کے لیے اللہ کے محتاج ہیں اور جو اللہ سے ضرورتیں پوری کرنے کی دعا کرتا ہے، اللہ اس کی ضرورتیں پوری کر دیتا ہے۔ سارے انسان رات دن گناہ کرتے ہيں اور اللہ ان کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور بخشش مانگنے پر بخش دیتا ہے۔ انسان نہ تو اللہ کو ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہيں۔ اگر سارے انسان ایک متقی شخص کی طرح ہو جائیں، تو ان کے اس تقوے سے اللہ کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر سارے انسان کسی گنہگار ترین شخص کے جیسے ہو جائیں، تو ان کے اس گناہ میں ملوث ہو جانے سے اللہ کی بادشاہت میں کوئی کمی نہيں ہوگی۔ کیوں کہ انسان کمزور اور ہر حال اور ہر زمان و مکان میں اللہ کے محتاج ہیں، جب کہ اللہ غنی اور بے نیاز ہے۔ اگر سارے انسان اور جن، پہلے اور بعد کے لوگ کسی ایک مقام پر کھڑے ہوکر اللہ سے اپنی اپنی مرادیں مانگنے لگیں اور اللہ سب کی جھولیاں بھر دے، تو اس سے اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بالکل اسی طرح، جس طرح سمندر میں ایک سوئی ڈال کر نکال لینے سے سمندر کا پانی گھٹتا نہیں ہے۔ ایسا اس لیے کہ اللہ بڑا ہی غنی ہے۔ اللہ بندوں کے اعمال کی حفاظت کرتاہے ، انھیں ان کے لئے اعمال کو شمار کرتا ہے اور قیامت کے دن انھیں ان کا پورا پورا بدلہ بھی دے گا۔ ایسے میں جو اپنے اعمال کا بدلہ اچھا پائے، وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے نیک کام کرنے کی توفیق عطا کی اور جو اپنے اعمال کا بدلہ اس سے الگ پائے، وہ صرف اور صرف اپنے نفس کو کوسے، جو اسے برائی کا حکم دیتا تھا اور جس نے اسے ناکامی اور نامرادی سے دوچار کیا۔

فوائد الحديث

یہ حدیث ان حدیثوں میں سے ایک ہے، جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پاک پروردگار سے روایت کیا ہے۔ اس طرح کی حدیث کو حدیث قدسی یا حدیث الہی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے، جس کے لفظ اور معنی دونوں اللہ کے ہوں۔ البتہ اس کے اندر قرآن کی خصوصیات، جیسے اس کی تلاوت کا عبادت ہونا، اس کے لیے طہارت حاصل کرنا اور اس کا معجزہ ہونا وغیرہ نہیں پائی جاتیں۔

انسان کو جو بھی علم اور رہنمائی ملتی ہے، وہ اللہ کی جانب سے ملتی ہے۔

انسان کو جو بھلائی ملتی ہے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے ملتی ہے اور جو برائی ملتی ہے، وہ اس کے نفس کی جانب سے ہوتی ہے۔

جس نے اچھا کام کیا، اس نے اللہ کی توفیق سے کیا اور اس کی جزا دراصل اللہ کا فضل و کرم ہے، اس لیے ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اس کے برخلاف جس نے برا کام کیا، وہ صرف اپنے نفس کو کوسے۔

التصنيفات

عقیدہ, توحيدِ اسماء وصفات