إعدادات العرض
وہ ایک شیطان ہے، جسے خِِنزَب کہا جاتا ہے۔ جب تمھیں اس کے خلل انداز ہونے کا احساس ہو، تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھتکارو
وہ ایک شیطان ہے، جسے خِِنزَب کہا جاتا ہے۔ جب تمھیں اس کے خلل انداز ہونے کا احساس ہو، تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھتکارو
عثمان بن ابوالعاص سے روایت ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! شیطان میرے، میری نماز اور میری تلاوت کے بیچ حائل ہو جاتا ہے اور مجھے الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چناں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "وہ ایک شیطان ہے، جسے خِِنزَب کہا جاتا ہے۔ جب تمھیں اس کے خلل انداز ہونے کا احساس ہو، تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھتکارو۔" ان کا کہنا ہے کہ میں نے آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا، تو اللہ نے میری اس پریشانی کو دور کر دیا۔
الترجمة
العربية English မြန်မာ Svenska Čeština ગુજરાતી አማርኛ Yorùbá Nederlands Bahasa Indonesia ئۇيغۇرچە বাংলা Türkçe සිංහල हिन्दी Tiếng Việt Hausa Kiswahili ไทย پښتو অসমীয়া دری Кыргызча Lietuvių Kinyarwanda नेपाली తెలుగు Bosanski ಕನ್ನಡ Kurdî മലയാളം Oromoo Română Italiano Soomaali Shqip Српски Українська Wolof Moore Tagalog Malagasy தமிழ் Azərbaycan فارسی ქართული 中文 Magyarالشرح
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! شیطان میرے اور میری نماز کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، نماز میں خشوع پیدا ہونے نہیں دیتا اور میری تلاوت میں شک پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا: وہ ایک شیطان ہے، جسے خِِنزَب کہا جاتا ہے۔ لہذا جب تمھیں اس کی دخل اندازی کا احساس ہو، تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو اور تین بار بائیں طرف تھتکارو۔ عثمان کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر عمل کیا، تو اللہ نے میری اس الجھن کو دور کر دیا۔فوائد الحديث
نماز میں خشوع و خضوع اور حضور قلب کی اہمیت۔ ساتھ ہی یہ کہ شیطان نماز میں شک و شبہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
جب شیطان نماز کے دوران برے خیالات ڈالے، تو اس سے اللہ کی پناہ مانگنا اور تین بار بائیں جانب تھتکارنا مستحب ہے۔
صحابہ کے سامنے جب کوئی پریشانی آتی، تو وہ اس کے حل کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے رجوع کرتے۔
صحابہ کرام کے دل زندہ تھے اور انہیں صرف آخرت کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔