بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں۔ البتہ مجھے فال اچھی لگتی ہے"۔ صحابہ کرام نے پوچھا : فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھی بات“۔

بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں۔ البتہ مجھے فال اچھی لگتی ہے"۔ صحابہ کرام نے پوچھا : فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھی بات“۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں۔ البتہ مجھے فال اچھی لگتی ہے"۔ صحابہ کرام نے پوچھا : فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھی بات“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ عہد جاہلیت کے لوگوں کا یہ عقیدہ باطل ہے کہ بیماری اللہ کے فیصلے اور اس کی لکھی تقدیر کے بغیر ہی ایک شخص سے دوسرے شخص کی جانب منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ اسی طرح بدشگونی لینا بھی باطل ہے۔ بدشگونی نام ہے کسی مسموع یا مرئی چیز، جیسے پرندوں، جانوروں، معذور لوگوں، اعداد یا دنوں وغیرہ سے بدفالی لینے کا۔ اس حدیث میں بدشگونی کے لیے " الطيرة" لفظ کا استعمال اس لیے ہوا ہے کہ عہد جاہلیت میں بدشگونی کا یہ طریقہ بہت مشہور تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ عرب کے لوگ جب سفر یا تجارت وغیرہ کوئی کام شروع کرنا چاہتے، تو پرندہ اڑا کر دیکھتے۔ اگر پرندہ دائیں اڑتا، تو اسے نیک فال سمجھ کر قدم آگے بڑھاتے اور اگر بائيں اڑتا، تو بدشگونی کے عقیدے کے تحت قدم پیچھے واپس کھینچ لیتے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ آپ کو فال اچھی لگتی ہے۔ فال یہ ہے کہ انسان کو کوئی اچھی بات سن کر فرحت و سرور حاصل ہو اور وہ اپنے رب سے حسن ظن قائم کر لے۔

فوائد الحديث

اللہ پر توکل اور یہ کہ خیر صرف اللہ ہی لاتا ہے اور شر کو صرف صرف وہی دور کرتا ہے۔

بدشگونی سے ممانعت۔ بدشگونی یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے برا شگون لے اور اس کی وجہ سے عملی اقدام سے رک جائے۔

فال منع شدہ بدشگونی میں داخل نہیں ہے۔ یہ دراصل اللہ سے حسن ظن ہے۔

ہر چیز اللہ وحدہ لا شریک لہ کى تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔

التصنيفات

توحیدِ اُلوہیت