إعدادات العرض
”کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال سے بہتر، تمھارے مالک کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ، تمھارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے،
”کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال سے بہتر، تمھارے مالک کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ، تمھارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے،
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال سے بہتر، تمھارے مالک کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ، تمھارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، تمھارے لیے سونا اور چاندی صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر اور تمھارے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر ہے کہ تمھارا مقابلہ تمھارے دشمن کے ساتھ ہو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمھاری گردنیں اڑائیں؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں! (ایسا عمل تو ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا : ”(وہ ہے) اللہ تعالیٰ کا ذکر۔“
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Tiếng Việt සිංහල ئۇيغۇرچە Hausa Kurdî Kiswahili Português دری অসমীয়া ไทย አማርኛ Svenska Yorùbá Кыргызча ગુજરાતી नेपाली Română മലയാളം Nederlands Oromoo Soomaali پښتو తెలుగు Kinyarwanda Malagasy ಕನ್ನಡ Српскиالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمھیں بتادوں کہ تمھارے عزیز وبرتر مالک کے یہاں تمھارا کون سا عمل سب سے افضل، اشرف اور پاکیزہ ترین ہے؟ ۔ جنت میں تمھارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے؟ اور جو تمھارے لیے سونا اور چاندی صدقہ وخیرات کرنے سے بہتر ہے؟ اسی طرح جو تمھارے لیے اس بات سے بھی بہتر ہے کہ میدان جنگ میں تمھارا سامنا کفار سے لڑائى کے لئے ہو اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟ صحابہ نے جواب دیا : ہم ضرور بالضرور اس چیز کو جاننا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تمام اوقات اور تمام حالات میں اللہ کا ذکر کرنا۔فوائد الحديث
ہمیشہ ظاہری وباطنی ہر طرح سے اللہ تعالی کا ذکر کرتے رہنا عظیم ترین تقرب اور اللہ تعالی کے نزدیک مفید ترین عبادت ہے۔
تمام اعمال اللہ کے ذکر کے لیے مشروع کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔" اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "خانۂ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے۔" اس حدیث کو امام ابو داود اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عز بن عبد السلام اپنے قواعد میں کہتے ہيں: یہ حدیث ان نصوص میں سے ہے، جو دلالت کرتے ہيں کہ ثواب تمام عبادتوں میں تکان کے بہ قدر ہی نہیں ملتا۔ کبھی کبھی اللہ تھوڑے اعمال میں کثیر اعمال سے زیادہ ثواب عطا کرتا ہے۔ ثواب اعمال کے شرف ومنزلت میں رتبوں کے تفاوت کے اعتبار سے ملتا ہے۔
مناوی فیض القدیر میں کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ذکر ان لوگوں کے حق میں افضل تھا، جو اس وقت آپ کے سامنے موجود تھے۔ سامنے اگر ایسے بہادر لوگ موجود ہوتے، جو میدان جنگ میں پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مفید ہوتے، تو انھیں جہاد افضل عمل بتایا جاتا۔ اگر ایسے مال دار لوگ موجود ہوتے، جن کے مال سے غریبوں کو فائدہ ہوتا، تو انھیں افضل عمل صدقہ بتایا جاتا۔ حج کرنے کی طاقت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے، تو ان کو حج افضل عمل بتایا جاتا۔ اگر ایسے لوگ ہوتے، جن کے والدین موجود ہوتے، تو انھیں ان کی خدمت کرنا افضل عمل بتایا جاتا۔ اس سلسلے میں وارد مختلف حدیثوں کے درمیان تطبیق دینے کا یہی طریقہ ہے۔
کامل ترین ذکر وہ ہے، جو زبان سے کیا جائے اور ساتھ میں دل غور و فکر کرے، پھر اس ذکر کا درجہ آتا ہے، جو دل سے کیا جائے، جیسے غور و فکر اور پھر وہ ذکر جو صرف زبان سے کیا جائے۔ بہر صورت ذکر ثواب کا کام ہے۔
ایک مسلمان کو مختلف اوقات کے اذکار، جیسے صبح و شام کے اذکار، مسجد، گھر اور بیت الخلا میں داخل ہونے اور نکلنے وغیرہ کے اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے، جن کا اہتمام انسان کو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔
التصنيفات
ذکر کے فضیلت