”دنیا میں ایسے رہو، جیسے ایک اجنبی یا راہ گیر ہو“۔

”دنیا میں ایسے رہو، جیسے ایک اجنبی یا راہ گیر ہو“۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بيان کرتے ہيں کہ رسول الله ﷺ نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا : ”دنیا میں ایسے رہو، جیسے ایک اجنبی یا راہ گیر ہو“۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرمايا کرتے تھے: ”جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو۔ اپنی صحت وتندرستی کے زمانے ميں بيماری کے ليے اور اپنی زندگی ميں موت کے ليے تيارى كرلو“۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہيں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کندھے کو پکڑا اور ان سے کہا : دنیا میں ایسے رہو، جیسے تم ایک اجنبی آدمی ہو، جو ایک ایسی جگہ پہنچ چکا ہو، جہاں نہ رہنے کا گھر ہو اور نہ دل بہلانے کے لیے آدمی۔ نہ اہل و عیال ہوں اور نہ رشتے داریاں۔ کیوں کہ یہی چيزیں انسان کو اس کے پیدا کرنے والے سے مشغول رکھتی ہیں۔ بلکہ اجنبی سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر اپنے وطن کی تلاش میں نکلا ہوا راہ گير بن جاؤ۔ اجنبی شخص تو کبھی کبھی کسی اجنبی جگہ میں اقامت گزیں بھی ہو جاتا ہے، لیکن اپنے شہر کی جانب جاتا ہوا راہ گير چلتا ہی رہتا ہے۔ کہیں اقامت پزیر نہيں ہوتا۔ اس کی نظر منزل پر رہتی ہے۔ لہذا جس طرح ایک مسافر اتنی ہی چيزیں ساتھ لے جانا ضروری سمجھتا ہے، جو منزل تک پہنچا دیں، اسی طرح ایک مومن دنیا کے اتنے ہی اسباب جمع کرنا ضروری سمجھتا ہے، جو اسے منزل (جنت) تک پہنچا دیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس نصیحت پر مکمل طور سے عمل کیا۔ وہ کہا کرتے تھے : صبح آئے، تو شام کا انتظار مت کرو اور شام آئے تو صبح کا انتظار مت کرو۔ خود کو قبر میں دفن لوگوں میں شمار کرو۔ کیوں کہ انسان کی زندگی صحت اور مرض سے خالی نہيں ہوتی۔ اس لیے بیماری کے دن آنے سے پہلے صحت کے دنوں میں نیکی کے کام کر لیا کرو۔ صحت کے دنوں میں نیکی کے کام کرتے جاؤ کہ کہیں بیماری راہ نہ روک لے۔ دنیا کی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے ایسی چیزیں اکٹھی کرلو، جو موت کے بعد کام آئيں۔

فوائد الحديث

تعلیم دیتے وقت انسیت پیدا کرنے اور توجہ مرکوز کرانے کے لیے استاد شاگرد کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ سکتا ہے۔

مطالبے کے بغیر بھی کسی کی خیرخواہی اور رہ نمائی کی جا سکتی ہے۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقۂ تعلیم کی ایک خوب صورتی یہ ہے کہ آپ اطمینان بخش مثالیں پیش کیا کرتے تھے۔ مثلا یہاں فرمایا : ”دنیا میں ایسے رہو، جیسے ایک اجنبی یا راہ گیر ہو“۔

آخرت کی راہ پر چلنے والے لوگوں کے الگ الگ درجات ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ زہد کے معاملے میں راہ گير کا درجہ اجنبی کے درجے سے اعلی ہے۔

امیدیں کم رکھنے اور موت کی تیاری کرنے کا بیان۔

یہ حدیث فکر معاش سے کنارہ کش ہونے اور دنیا کی لذتوں کو حرام کر لینے پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ بس دنیا کے پیچھے سرپٹ دوڑنے سے بچنے کی ترغیب دیتی ہے۔

نیکی کے کام اس سے پہلے کر لیے جائيں کہ بیماری یا موت راہ روک لے اور انسان کچھ کر نہ سکے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے بہت متاثر ہوئے۔

ایمان والوں کا وطن جنت ہے۔ اسى لئے وہ اس دنیا میں اجنبی ہیں۔ وہ آخرت کے سفر پر رواں دواں ہيں۔ اس لیے اجنبی شہر کی کسی چيز سے دل نہ لگائيں۔ ان کے دل اپنے وطن پر اٹکے رہیں۔ دنیا میں سکونت بس اس لیے ہو کہ ضرورت پوری ہو جائے اور وطن کی جانب لوٹنے کی تیاری ہو جائے۔

التصنيفات

تزکیہ نفس