”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔

”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے کہ کسی شخص کو ایمان کامل کی دولت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی، جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی دین اور دنیا کی وہی چیزیں پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہو اور اس کے لیے انھیں چيزوں کو ناپسند نہ کرے، جنھیں اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔ اگر اپنے بھائی کے اندر دین کی کوئی کمی دیکھے، تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور کوئی اچھائی دیکھے تو اسے اور جلا دے اور اس میں مدد کرے۔ دین اور دنیا سے متعلق تمام امور میں اس کی خیرخواہی کرے۔

فوائد الحديث

انسان پر یہ واجب ہے کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ کیوں کہ جو اپنے لیے پسند ہو اسے اپنے بھائی کے لیے پسند نہ کرنے والے کے ایمان کی نفی یہی بتاتی ہے۔

دینی اخوت کا درجہ نسبی اخوت سے اوپر ہے۔ لہذا اس کا حق بھی زیادہ واجب ہے۔

ایسے تمام اقوال و افعال جیسے دھوکہ، غیبت، حسد اور مسلمان کی جان، مال یا عزت و آبرو پر حملہ وغیرہ حرام ہیں، جو اس اخوت کے منافی ہوں۔

مہمیز کا کام کرنے والے الفاظ کا استمال۔ کیوں کہ آپ نے "اپنے بھائی" کا لفظ استعمال کیا ہے۔

کرمانی کہتے ہيں : ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے بھائی کے لیے وہی ناپسند کرے، جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہو۔ لیکن اس کا ذکر آپ نے نہیں کیا۔ کیوں کہ کسی چيز سے محبت سے اس کی ضد سے نفرت لازم آتی ہے۔ لہذا اسے الگ سے بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

التصنيفات

اخلاقِ حمیدہ/ اچھے اخلاق