”نہ چھوت لگنا ہے اور نہ بدشگونی، نہ الو کی نحوست ہے اور نہ ماہ صفر کی۔ تم کوڑھ کے مریض سے اسی طرح بھاگو، جس طرح شیر سے بھاگتے ہو“۔

”نہ چھوت لگنا ہے اور نہ بدشگونی، نہ الو کی نحوست ہے اور نہ ماہ صفر کی۔ تم کوڑھ کے مریض سے اسی طرح بھاگو، جس طرح شیر سے بھاگتے ہو“۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ”نہ چھوت لگنا ہے اور نہ بدشگونی، نہ الو کی نحوست ہے اور نہ ماہ صفر کی۔ تم کوڑھ کے مریض سے اسی طرح بھاگو، جس طرح شیر سے بھاگتے ہو“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم دور جاہلیت کی کچھ چيزوں کو ذکر، ان سے خبردار رکھنے اور یہ بتانے کے لیے فرمایا کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کچھ بھی اس کے فیصلے اور لکھے سے ہٹ کر نہيں ہوتا۔ یہ چیزیں ہیں : 1- دور جاہلیت کے لوگ سمجھتے تھے کہ مرض بذات خود متعدی ہوا کرتی ہے۔ لہذا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتا دیا کہ کوئی بیماری طبعی طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی۔ اس کائنات کا تصرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی بیماری اتارتا ہے اور اٹھاتا ہے۔ یہ سب اس کے ارادے اور فیصلے کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ 2- دور جاہلیت کے لوگ جب سفر یا تجارت کے ارادے سے نکلتے، تو کسی پرندے کو بھگاتے۔ وہ اڑ کر کر دائيں طرف جاتا، تو خوش ہو جاتے۔ لیکن اگر دائيں طرف جاتا، تو برا شگون لیتے اور لوٹ جاتے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح پرندہ اڑا کر برا شگون لینے سے منع فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ایک غلط عقیدہ ہے۔ 3- دور جاہلیت کے لوگ کہتے تھے : کسی گھر پر الو بیٹھ جائے، تو اہل خانہ مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح برا شگون لینے سے منع فرمایا ہے۔ 4- آپ نے صفر مہینے کا برا شگون لینے سے منع فرمایا ہے۔ صفر قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صفر ایک کیڑا ہے، جو جانور یا انسان کے پیٹ میں پیدا ہو جاتا ہے۔ عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ کھاج کھجلی سے بھی زیادہ متعدی بیماری ہے۔ چنانچہ آپ نے اس عقیدے کی نفی کر دی۔ 5- آپ نے کوڑھ کے مرض کے شکار انسان سے اسی طرح بھاگنے کا حکم دیا ہے، جس طرح شیر سے بھاگا جاتا ہے۔ دراصل یہ حکم اپنے لیے احتیاط، طلب عافیت اور اسباب پر عمل کرنے کے قبیل سے ہے۔ کوڑھ ایک بیماری، جس کے شکار انسان کے جسم کے اعضا گلنے لگتے ہيں۔

فوائد الحديث

اللہ پر بھروسہ و اعتماد اور مشروع اسباب اختیار کرنے کی ضرورت۔

قضا و قدر اور اس بات پر ایمان رکھنے کی ضرورت کہ اسباب اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی ان کو مؤثر بناتا ہے اور تاثیر سے محروم کرتا ہے۔

جو لوگ سیاہ و سرخ وغیرہ رنگوں، بعض ارقام، اسما، اشخاص اور مصیبت زدوں سے بد شگونی لیتے ہیں، ان کا یہ عمل باطل و بے بنیاد ہے۔

مجذوم اور اسی طرح متعدی امراض کے شکار لوگوں کے قریب جانے کی ممانعت دراصل ان اسباب میں سے ہے، جن کے بطن سے عام طور پر اللہ کے حکم سے مسببات پیدا ہوا کرتے ہيں۔ دیکھا جائے تو اسباب کا اپنا مستقل وجود نہيں ہوتا، بلکہ اللہ چاہے تو ان کی تاثیر ختم کر کے بے اثر بنا دے اور چاہے تو ان کے اثر کو باقی رکھ کر ان کو مؤثر رہنے دے۔

التصنيفات

جاہلیت کے مسائل, دل کے اعمال