إعدادات العرض
مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کے لیے ان کی امت میں سے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔
مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کے لیے ان کی امت میں سے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کے لیے ان کی امت میں سے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جو وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ کام تھے جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ لہذا جس نے ان سے ہاتھ سے جہاد کیا، وہ مؤمن ہے، جس نے ان سے دل سے جہاد کیا، وہ مؤمن ہے اور جس نے ان سے اپنی زبان سے جہاد کیا، وہ مؤمن ہے اور ان کے علاوہ باقی لوگوں کے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔"
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdî Kiswahili Português සිංහල አማርኛ Nederlands Tiếng Việt অসমীয়া Oromoo پښتو ગુજરાતી ไทย മലയാളം Românăالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی امت کے اندر جو بھی رسول بھیجا، اس کے حق میں امت کے کچھ منتخب، مدگار اور مخلص مجاہد ہوا کرتھے تھے، جو اس کے بعد اس کی بہتر جا نشینی کے حقدار ہوا کرتے تھے، اس کی سنت پر کار بند رہتے اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے تھے۔ لیکن ان سلف صالحین کے بعد پھر ایسے بے سود لوگ آ جاتے تھے، جو کہتے وہ تھے، جس پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور کرتے وہ تھے، جس کا حکم ان کو دیا نہيں گیا تھا۔ لہذا جس نے ایسے لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد کیا، وہ مومن ہے۔ جس نے ان سے اپنے دل سے جہاد کیا‘ وہ مومن ہے۔ جس نے ان سے اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے پرے ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہيں ہے۔فوائد الحديث
اقوال وافعال کے ساتھ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں سے جہاد کرنے کی ترغیب۔
برائی (منکر) کو دل سے برا نہ جاننا ایمان کی کمزوری یا ختم ہو جانے کی دلیل ہے۔
اللہ پاک اپنے انبیائے کرام کے لیے ایسے لوگ فراہم کر دیتا ہے، جو ان کے بعد ان کا پیغام دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔
جسے نجات چاہیے، وہ انبیا کے منہج کی اتباع کرے۔ کیوں کہ ان کے راستے کے علاوہ ہر راستہ گمراہی و ہلاکت کا راستہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ جس قدر دور ہوتا جائے گا، اسی قدر لوگ سنتوں کو ترک کرتے چلے جائیں گے، خواہشات نفس کے پیروکار بنتے جائیں گے اور بدعتیں ایجاد کرنے لگیں گے۔
جہاد کے مراتب کا بیان۔ ساتھ ہی یہ کہ اگر حالات بدلنے کی طاقت ہو، تو جہاد ہاتھ سے ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں اولیاء الامور، حکام اور امرا آتے ہیں۔ قول کے ذریعے جہاد سے مراد حق بیانی سے کام لینا اور اس کی دعوت دینا ہے۔ جبکہ قلبی جہاد سے مراد غلط کو غلط سمجھنا، اسے پسند نہ کرنا اور اس سے راضی نہ رہنا ہے۔
بھلائی (معروف) کا حکم دینے اور برائی (منکر) سے روکنے کا وجوب۔