”سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو ان کے اوپر ڈالى گئى ہے اور تم پر اس بات کی ذمے داری ہے جو تم پر ڈالى گئى ہے“۔

”سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو ان کے اوپر ڈالى گئى ہے اور تم پر اس بات کی ذمے داری ہے جو تم پر ڈالى گئى ہے“۔

وائل حضرمی کہتے ہیں کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: اے اللہ کے نبی! اگر ہم پر ایسے حکمراں مسلط ہو جائیں، جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں، لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں، تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے ان سے اعراض کیا۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا، تو بھی آپ ﷺ نے ان کى بات پر توجہ نہ دی، انہوں نے پھر سوال کیا دوسرى بار یا تیسری بار تو ان کو اشعث بن قیس نے کھینچ لیا، اور آپﷺ نے فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو ان کے اوپر ڈالى گئى ہے اور تم پر اس بات کی ذمے داری ہے جو تم پر ڈالى گئى ہے“۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے حکمرانوں کے بارے میں پوچھا گيا، جو لوگوں سے اپنی بات ماننے اور پیروی کرنے کا مطالبہ کرتے ہيں، لیکن انصاف کرنے، مال غنیمت دینے، ظلم سے بچانے اور برابری کا معاملہ کرنے جیسے اپنے اوپر عائد ہونے والے لوگوں کے حقوق ادا نہيں کرتے۔ ایسے میں ان کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے؟ یہ سوال سننے کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سائل سے منہ پھیر لیا۔ ایسا لگا کہ آپ کو یہ سوال پسند نہيں آیا۔ لیکن سائل اپنا سوال دوسری بار اور پھر تیسری بار دوہراتا رہا۔ یہ دیکھ کر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے خاموش کرنے کے لیے سائل کو کھینچا۔ لہذا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کا جواب دے دیا۔ فرمایا : تم ان کی بات سنو اور ان کے حکم کی تعمیل کرو۔ کیوں کہ ان کو عدل و انصاف کرنے اور عوام کو ان کا حق دینے جیسی ذمے داریوں کا جواب دینا ہے، جو ان کے سر پر ڈالی گئی ہيں اور تمہیں اطاعت گزاری، حقوق کی ادائیگی اور آزمائش کے موقع پر صبر جیسی ان ذمے داریوں کا جواب دینا ہے، جو تمھارے سر پر ڈالی گئی ہيں۔

فوائد الحديث

اللہ کی رضا جوئی کے کاموں میں حکمرانوں کی بات سنی جائے گی اور ان کی اطاعت ہر حال میں کی جائے گی، خواہ وہ رعیت کا حق ادا نہ بھی کرتے ہوں۔

حکمرانوں کی جانب سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں ہونے والی کوتاہی اس بات کی اجازت نہيں دیتی کہ عوام بھی اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے لگیں۔ کیوں کہ ہر انسان سے خود اس کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور خود اس کی کوتاہی کا مؤاخذہ ہوگا۔

دین کی بنیاد جیسے کو تیسا کے اصول پر نہیں، بلکہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے پر ہے۔ خواہ سامنے والا شخص اپنی ذمے داری کی ادائیگی میں کوتاہی ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ یہی بات اس حدیث میں کہی گئی ہے۔

التصنيفات

امام کے رعیت پر حقوق