اس کے پاس جاؤ اور اسے بتادو کہ جہنمیوں میں سے نہیں، بلکہ جنتیوں میں سے ہیں۔

اس کے پاس جاؤ اور اسے بتادو کہ جہنمیوں میں سے نہیں، بلکہ جنتیوں میں سے ہیں۔

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو غیر موجود دیکھ کر ان کے بارے میں پوچھا، تو ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس ان کے بارے میں جان کاری لے آؤں گا۔ چنانچہ وہ ثابت بن قیس کے یہاں گیا، تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس نے حال پوچھا، تو انھوں نے جواب دیا کہ حال برا ہے۔ ان کی آواز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اونچی ہو جایا کرتی تھی، اس لیے ان کا عمل ضائع ہو گیا اور اب وہ جہنمی ہیں۔ چنانچہ وہ آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا تھا، سب سنا دیا۔ چنانچہ دوسری بار وہ ان کے پاس ایک بہت بڑی خوش خبری کے ساتھ گئے۔ دراصل آپ نے کہا تھا : "اس کے پاس جاؤ اور اسے بتادو کہ جہنمیوں میں سے نہیں، بلکہ جنتیوں میں سے ہیں۔"

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

ایک بار اللہ کے نبی صلی اللہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو غیر حاضر دیکھا اور ان کے بارے میں پوچھا، تو ایک شخص نے بتایا کہ میں جاکر پتہ لگاتا ہوں اور آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ غائب کیوں ہیں؟ چنانچہ وہ ‎شخص ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا، تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں اداس ہوکر سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس شخص نے جب حال پوچھا، تو انھوں نے وہ کرب بتایا، جس سے وہ گزر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی آواز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اونچی ہو جایا کرتی تھی اور اللہ نے ایسا کرنے والے کو یہ دھمکی دی ہے کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ چنانچہ وہ شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، سب کچھ بتا دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ وہ دوبارہ ثابت بن قیس کے پاس جائیں اور ان کو یہ خوش خبری دیں کہ وہ جہنمی نہيں، بلکہ جنتی ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ان کی آواز پیدائشی طور پر اونچی تھی اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور انصار کے خطیب تھے۔

فوائد الحديث

ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور اس بات کا بیان کہ وہ جنتی ہيں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابۂ کرام کا خیال رکھتے اور ان کی خبر گیری فرماتے تھے۔

صحابۂ کرام کو ہمیشہ اس بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ان کے اعمال ضا‏ئع نہ ہو جائیں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں آپ سے بات کرتے وقت ادب کا لحاظ رکھنا ضروری تھا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی حدیث سنتے وقت آواز دھیمی رکھنا واجب ہے۔

التصنيفات

صحابہ رضی اللہ عہنہم کی فضیلت