نیک اعمال کی طرف تیزی سے بڑھو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛

نیک اعمال کی طرف تیزی سے بڑھو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نیک اعمال کی طرف تیزی سے بڑھو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مؤمن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔"

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم مومن کو اچھے کاموں کی طرف تیزی سے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، قبل اس کے کہ اچھے کاموں سے روک دینے والے فتنوں اور شبہات کی آمد کی وجہ سے انھیں کرنا دشوار ہو جائے اور انسان کے ہاتھ سے موقع نکل جائے۔ یہ فتنے تاریکیوں کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ مانو رات کے ٹکڑے ہوں۔ ان کے آنے کی وجہ سے حق باطل کے ساتھ اس طرح گڈ مڈ ہو جائے گا کہ انسان کے لیے دونوں کے درمیان فرق کرنا دشوار ہو جائے گا۔ حالت یہ ہوگی کہ انسان بدحواسی کا شکار ہو جائے گا۔ صبح مومن رہے گا، تو شام کو کافر ہو جائے گا۔ شام کو مومن رہے گا، تو صبح کافر بن جائے گا۔ دنیا کے متاع فانی کی وجہ سے دین سے کنارہ کش ہو جائے گا۔

فوائد الحديث

دین کو مضبوطی سے پکڑے رہنے اور عمل صالح کی جانب تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت، قبل اس کے کہ موانع حائل ہو جائيں۔

آخری وقت میں گمراہ کن فتنوں کے پے در پے آنے کا اشارہ۔ صورت حال یہ ہوگی کہ ایک فتنہ جائے گا تو دوسرا فتنہ آ جائے گا۔

جب انسان کا دین کمزور ہو جاتا ہے اور وہ متاع دنیا، جیسے مال وغیرہ کے چکر میں دین سے کنارہ کش ہو جاتا ہے، تو یہ اس کے دین سے انحراف، دین بیزاری اور فتنوں کے شکار ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔

اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اچھے اعمال فتنوں سے نجات کا سبب ہے۔

فتنوں کی دو قسمیں ہيں : شبہات کا فتنہ، جس کا علاج علم ہے اور شہوات کا فتنہ، جس کا علاج ایمان اور صبر ہے۔

اس حدیث میں اس بات کا اشارہ ہے کہ جو قلیل العمل ہوگا، اس کی جانب فتنے زیادہ تیزی سے آئيں گے اور جو کثیرالعمل ہوگا، اسے اپنے عمل کے دھوکے میں آنے کے بجائے مزید عمل کرنا چاہیے۔

التصنيفات

ایمان کے شعبے