إعدادات العرض
”آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔“
”آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔“
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کے اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔“
الترجمة
العربية Tagalog Português دری অসমীয়া বাংলা Kurdî پښتو Hausa Tiếng Việt Македонски O‘zbek Kiswahili ភាសាខ្មែរ ਪੰਜਾਬੀ Moore తెలుగు Azərbaycan ไทย አማርኛ Magyar Türkçe ქართული 中文 ಕನ್ನಡ ગુજરાતી Українська Shqip हिन्दी Кыргызча Српски Kinyarwanda тоҷикӣ Wolof Čeština Русский Bahasa Indonesia English தமிழ் नेपाली മലയാളം kmr فارسی Bambara ms Bosanski Lietuviųالشرح
اللہ کے نبی ﷺ نے بیان فرمایا کہ ایک مسلمان کے اسلام کی ایک اہم ترین خوبی اور اس کے کامل مومن ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں اور کاموں سے دور رہے جو اس سے سروکار نہ رکھتے ہوں، اس کی مطلب کے نہ ہوں اور اس کے لیے سودمند نہ ہوں۔ یا پھر ایسے دینی و دنیوی امور سے دور رہے، جو اس سے سروکار نہ رکھتے ہوں۔ کیوں کہ بنا سروکار کی چیزوں میں مشغولیت سروکار کی چیزوں سے دور کر سکتی ہے یا ایسی چیزوں کی جانب لے جا سکتی ہے، جن سے بچنا ضروری ہے۔ ویسے بھی قیامت کے دن انسان سے خود اس کے اعمال کے بارے میں ہی پوچھا جائے گا۔فوائد الحديث
اسلام کے معاملے میں لوگوں کے اندر تفاوت ہوا کرتا ہے اور کچھ اعمال سے اسلام کا حسن دو بالا ہو جایا کرتا ہے۔
لغو اور بے کار کے کاموں اور باتوں سے گریز کرنا انسان کے کامل مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔
یہاں انسان کو ایسے دینی ودنیوی کاموں میں مشغول رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، جو اس سے سروکار رکھتے ہوں۔ کیوں کہ جب بنا سروکار کے کاموں سے دور رہنا اچھے مسلمان ہونے کی دلیل ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک اچھے مسلمان کو اپنے سروکار کے کاموں میں مشغول رہنا چاہیے۔
ابن قیم کہتے ہيں: اللہ کے نبی ﷺ نے «من حسن إسلام المرء: تركُه ما لا يعنيه» کہہ کر ورع کی تمام شکلوں کو یکجا کر دیا ہے۔ کیوں کہ اس کے اندر بات کرنا، دیکھنا، سننا، پکڑنا، چلنا اور سوچنا وغیرہ تمام ظاہری و باطنی حرکات شامل ہيں، جو سروکار کی نہ ہوں۔ ورع کے سلسلے میں یہ ایک تشفی بخش جملہ ہے۔
ابن رجب کہتے ہيں: یہ حدیث ادب کے ایک اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس حدیث سے طلب علم کی ترغیب ملتی ہے، کیوں کہ علم کے ذریعے ہی انسان یہ جان سکتا ہے کہ کون سا کام اس کے سروکار کا ہے اور کون سا نہيں۔
بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور خیرخواہی کرنا انسان کے سروکار کے کاموں میں سے ہیں۔ کیوں کہ اسے ان کاموں کا حکم دیا گیا ہے۔
اس حدیث کے معنی کے عموم میں ان تمام بے سروکار کی چیزوں سے دور رہنا شامل ہے، جنھیں اللہ عز و جل نے حرام قرار دیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اسی طرح غیبی حقائق اور خلق وامر کی تفصیلی حکمت جیسے اخروی امور بھی داخل ہيں، جن کی ایک مسلمان کو ضرورت نہيں ہوا کرتی۔ اس میں ایسے فرضی مسائل کے بارے میں بحث و تفتیش بھی شامل ہے، جو واقع نہ ہوئے ہوں، یا جن کے واقع ہونے کی امید نہ ہو یا پھر واقع ہونا محال ہو۔
التصنيفات
اخلاق ذمیمہ/ برے اخلاق