إعدادات العرض
”یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے
”یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا -اور نعمان نے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا-: ”یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ چنانچہ جو شخص شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں پڑ جائےگا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراہ گاہ کے اردگرد جانور چراتا ہے۔ ایسے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لے۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی)۔ آگاہ رہو! اللہ کی چراگاہ اس کى حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ درست ہو جاتا ہے، تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو! وہ دل ہے۔“
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Kurdî Hausa Português മലയാളം తెలుగు Kiswahili မြန်မာ Deutsch 日本語 پښتو Tiếng Việt অসমীয়া Shqip Svenska Čeština ગુજરાતી አማርኛ Yorùbá Nederlands සිංහල தமிழ் ไทย دری Fulfulde Magyar Italiano ಕನ್ನಡ Кыргызча Lietuvių Malagasy or Română Kinyarwanda Српски тоҷикӣ O‘zbek Moore नेपाली Oromoo Wolof Soomaali Български Українська Azərbaycan bm ქართული lnالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم چیزوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بتا رہے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ شریعت میں چیزیں تین طرح کی ہیں۔ واضح حلال، واضح حرام اور ایسی مشتبہ چیزیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہ ہو اور جن کے شرعی حکم سے بہت سے لوگ واقف نہ ہوں۔ ایسے میں جس نے ان مشتبہ چیزوں کو چھوڑ دیا، اس کا دین حرام چیزوں میں پڑنے سے محفوظ رہے گا اور اس کی عزت وآبرو اس مشتبہ چیز میں ملوث ہونے کی وجہ سے لوگوں کی چہ می گوئیوں سے محفوظ رہے گى۔ اس کے برخلاف جس نے ان مشتبہ چیزوں سے اجتناب نہيں کیا، اس نے اپنے نفس کو یا تو حرام چیز میں پڑنے یا لوگوں کی چہ می گوئیوں کا سامنا کرنے کے لیے آگے کر دیا۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مشتبہ کاموں کا ارتکاب کرنے والوں کی حالت بیان کرنے کے لیے ایک مثال دی اور بتایا کہ ایسے شخص کی مثال اس چرواہے کے جیسی ہے جو کسی کی محفوظ چراگاہ کے آس پاس اپنا جانور چراتا ہو۔ ایسے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ محفوظ چراگاہ کے آس پاس چرنے کی وجہ سے اس کا جانور چراگاہ کے اندر چرنے لگے۔ بالکل ایسے ہی جو شخص کوئی شبہ والا کام کرے گا، وہ اپنے اس کام کی وجہ سے حرام کے قریب ہو جائے گا اور اس بات کا امکان بنا رہے گا کہ وہ حرام میں پڑ جائے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ دل کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے (یعنی دل)، جس کے درست ہونے سے جسم درست رہتا ہے اور جس کے بگڑنے سے جسم بگڑ جاتا ہے۔فوائد الحديث
ایسی مشتبہ چیزوں کو چھوڑنے کی ترغیب جن کا حکم واضح نہ ہو۔