إعدادات العرض
تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل…
تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے"۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے, وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : "تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے"۔
الترجمة
العربية Kurdî English Kiswahili Español Português বাংলা Bahasa Indonesia فارسی தமிழ் हिन्दी සිංහල Tiếng Việt മലയാളം Русский မြန်မာ ไทย پښتو অসমীয়া Shqip Svenska Čeština ગુજરાતી አማርኛ Yorùbá Nederlands ئۇيغۇرچە Türkçe Bosanski Hausa తెలుగు دری Ελληνικά Azərbaycan Български Fulfulde Italiano ಕನ್ನಡ Кыргызча Lietuvių Malagasy or Română Kinyarwanda Српски тоҷикӣ O‘zbek नेपाली Moore Oromoo Wolof Tagalog Soomaali Français Українська bm Deutsch ქართული Македонски Magyar Lingala 中文الشرح
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں حسب استطاعت منکر کو بدلنے کا حکم دے رہے ہیں- منکر سے مراد ہر وہ عمل ہے، جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے- جو شخص کوئی منکر (غلط کام) دیکھے، تو اس پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اگر اس کے پاس طاقت ہو تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اس کے پاس اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس پر نکیر کرے۔ یعنی غلط کام کرنے والے کو اسے کرنے سے منع کرے، اسے اس کا نقصان بتائے اور اس کی رہنمائی اس برے کام کی جگہ پر کسی اچھے کام کی جانب کرے۔ اگر اس سے بھی عاجز ہو، تو اس کے دل میں اس غلط کام کے خلاف رد عمل ہونا چاہیے۔ یعنی اس غلط کام کو برا جانے اور یہ عزم کرے کہ اگر اس کے پاس اس سے روکنے کی طاقت آ جائے تو ضرور روکے گا۔ دل کے اندر پیدا ہونے والا یہ رد عمل ایمان کا سب سے کمزور مرتبہ ہے۔فوائد الحديث
یہ حدیث منکر کو تبدیل کرنے کے مراتب بیان کرنے کے سلسلے میں بنیاد اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
منکر سے روکنے کےسلسلے میں درجہ بندی کو محلوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہر انسان اپنی استطاعت و قدرت کے حساب سے اس کام کو انجام دے۔
منکر سے روکنا ایک بہت بڑی دینی ذمے داری ہے، جو کسى سے بھى ساقط نہیں ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق اس ذمے داری کو ادا کرنا ہے۔
بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا خصائل ایمان میں سے ایک خصلت ہے اور ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔
منکر سے روکنے کے لیے شرط ہے کہ اس عمل کے منکر ہونے کا علم ہو۔
منکر کو بدلنے کے لیے شرط ہے کہ اس کے نتیجے میں اس سے بڑا کوئی منکر وجود میں نہ آئے۔
منکر سے روکنے کے کچھ آداب اور شروط ہیں جن سے مسلمان کو آگاہ اور واقف ہونا چاہیے۔
منکر کی نکیر کرنے کے لیے شریعت کے اسرار ورموز سے واقفیت اور علم وبصیرت ضروری ہے۔
دل سے منکر کی نکیر نہ کرنا ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔