”جو بھی سونا یا چاندی والا شخص اپنے اس مال کا حق (زکوٰۃ) ادا نہیں کرتا، اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی

”جو بھی سونا یا چاندی والا شخص اپنے اس مال کا حق (زکوٰۃ) ادا نہیں کرتا، اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جو بھی سونا یا چاندی والا شخص اپنے اس مال کا حق (زکوٰۃ) ادا نہیں کرتا، اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی اور انہیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا۔ جب جب بھی تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گیں، انھیں دوبارہ گرمایا جائے گا۔ یہ عذاب ایک ایسے دن میں ہوگا، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی۔ (یہ سلسلہ جاری رہے گا) یہاں تک بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے اور (عذاب میں گرفتار شخص) جنت یا جہنم کی جانب اپنا راستہ دیکھ لے۔“

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف طرح کے اموال اور ان کی زکاۃ ادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن ملنے والی جزا کا ذکر کیا ہے۔ مثلا : 1- سونا، چاندی اور ان کا حکم رکھنے والے دیگر اموال اور تجارتی سامان۔ ان پر اگر زکاۃ واجب ہو جائے اور زکاۃ ادا نہ کی جا‏‏ئے، تو قیامت کے دن ان کو پگھلاکر پہلے تختیوں کی شکل میں ڈھالا جائے گا اور اس کے بعد ان تختیوں کو جہنم کی آگ میں تپاکر ان کے مالک کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغا جائے گا۔ جب جب ان کی گرمی ماند پڑ جائے گی، ان کو دوبارہ تپایا جائے گا۔ عذاب کا یہ سلسلہ قیامت کے روز دن بھر جاری رہے گا اور وہ دن بھی پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ یہاں تک کہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ طے ہو جائے گا اسے جنت میں جانا ہے یا جہنم میں۔ 2- اونٹ کا جو مالک فرض زکاۃ اور اس کا حق ادا نہ کرتا ہو اور اس کا ایک حق یہ ہے کہ اس کا دودھ مسکینوں کو بھی پینے کے لیے دیا جائے، تو قیامت کے دن اس کے اونٹوں کو پہلے سے کہیں زیادہ فربہ حالت اور زیادہ تعداد میں لایا جائے گا، پھر اس کے مالک کو ان کے سامنے ایک ہموار اور وسیع و عریض زمین میں لٹا دیا جائے گا، اس کے بعد وہ اونٹ اسے اپنے پیروں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے۔ جب آخری اونٹ گزر جائے گا، تو پہلے اونٹ سے پھر یہ سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ عذاب کا یہ سلسلہ قیامت کے روز دن بھر جاری رہے گا اور وہ دن بھی پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ یہاں تک کہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ طے ہو جائے گا اسے جنت میں جانا ہے یا جہنم میں۔ 3- گائے اور بکری کا جو مالک ان کی فرض زکاۃ نہ دیتا ہو، قیامت کے دن اس کی گايوں اور بکریوں کو ان کی پوری تعداد میں اس طرح سامنے لایا جائے گا کہ ایک گائے یا بکری بی ادھر ادھر نہیں ہوگی۔ سب جانور بالکل صحیح و سالم ہوں گے۔ نہ کسی کا سینگ مڑا ہوا ہوگا، نہ کسی کا سینگ ٹوٹا ہوا ہوگا اور نہ کوئی جانور بلا سینگ کا ہوگا۔ پھر ان کے مالک کو ایک وسیع و عریض اور ہم وار میدان میں ان کے سامنے لٹا دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ گائيں اور بکریاں اسے اپنے سینگوں اسے ماریں گی اور اپنے پیروں سے اسے کچلیں گی۔ جب آخری گائے یا بکری گزر جائے گی، تو پہلی گائے یا بکری سے پھر سے یہ سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ عذاب کا یہ سلسلہ قیامت کے روز دن بھر جاری رہے گا اور وہ دن بھی پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ یہاں تک کہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ طے ہو جائے گا اسے جنت مبں جانا ہے یا جہنم میں۔ 4- گھوڑا پالنے والا۔ دراصل گھوڑے تین طرح کے ہوا کرتے ہیں : 1- ایسا گھوڑا جو مالک کے لیے گناہ کا باعث ہو۔ اس سے مراد ایسا گھوڑا ہے، جسے نام و نمود، فخر اور اہل اسلام سے جنگ کے لیے پالا جائے۔ 2- ایسا گھوڑا جو انسان کے لیے پردے کا باعث ہو۔ اس سے مراد ایسا گھوڑا ہے، جسے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے رکھا جائے اور پھر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہوئے اسے کھلانے پلانے اور اس کی دیکھ بھال کا بہتر انتظام کیا جائے۔ 3- ایسا گھوڑا جو اجر و ثواب کا باعث ہو۔ اس سے مراد ایسا گھوڑا ہے، جسے مسلمانوں کی خاطر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے رکھا جائے۔ یہ جب کسی چراگاہ یا باغ میں ہوتے ہيں، تو وہ اس چراگاہ یا باغ میں جو کچھ بھی کھاتے ہیں ان کے کھانے کے بقدر اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ان کی لید اور پیشاب کے بقدر بھی اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر ایک ٹیلے یا دو ٹیلوں پر دوڑ کر چڑھ جائیں، تو ان کے پاؤں کے نشانات کے بقدر اور اس دوران گرنے والی لید پر بھی اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکیاں لکھ ديتا ہے۔ اگر ان کا مالک انہیں کسی نہر پر لے جائے اور وہ اس میں سے پانی پی لیں، حالاں کہ اس کا انہیں پانی پلانے کا ارادہ نہ بھی ہو، تب بھی وہ جتنا پانی پیتے ہیں، اس کے بقدر الله تعالى اس کے لیے نیکیاں لکھ ديتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا گدھے بھی گھوڑوں کے حکم میں ہيں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی مخصوص حکم نازل نہیں ہوا ہے، تاہم یہ منفرد اور جامع آیت موجود ہے، جس کے دائرے میں ہر طرح کی نیکیاں اور گناہ آ جاتے ہیں : [فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ] (الزلزلہ:7-8) (ترجمہ: پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی، وه اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی، وه اسے دیکھ لے گا۔) یعنی جس نے اچھے ارادے سے گدھا پالا ہوگا، وہ اس کا ثواب سامنے دیکھے گا اور جو برے ارادے سے پالا ہوگا، اس کی سزا بھی سامنے دیکھے گا۔ اس آیت کی وسعتوں میں تمام اعمال داخل ہیں۔

فوائد الحديث

زکاۃ دینا واجب ہے۔ اسے روکنے والے کے بارے میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔

سستی کی وجہ سے زکاۃ نہ دینے والا کافر تو نہيں ہے، لیکن وہ بڑے خطرے کے دہانے پر ہوتا ہے۔

انسان جب کوئی نیکی کا کام کرتا ہے، تو اس کی جزئیات کا بھی اسے ثواب ملتا ہے، جب اصل نيكى كى نيت كرلي ہو، گرچہ ان جزئیات وتفصیلات کى اس نے نیت نہ کى ہو۔

مال میں زکاۃ کے علاوہ اور بھی حقوق ہوتے ہيں۔

اونٹ کا ایک حق یہ ہے کہ جب اسے پانی پلانے کے لیے گھاٹ میں لے جایا جائے، تو وہاں موجود غریبوں کو بھی اس کا دودھ دوہ کر پلایا جائے۔ تاکہ ضرورت مندوں کے لیے آسانی ہو جائے کہ ان کو گھر گھر نہ جانا پڑے اور جانور کو بھی سہولت ہو۔ ابن بطال کہتے ہیں: مال پر دو طرح کے حق عائد ہوتے ہیں : ایک فرض عین اور دوسرا اس کے سوا۔ سو مسکینوں کو دودھ پلانے کا شمار ان حقوق میں ہوگا، جو مکارم اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں۔

اونٹ، بیل اور بکری کا ایک ضروری حق یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی مادہ جانور کو گابھن کرنے کے لیے چھوڑنے کو کہا جائے، تو چھوڑ دیا جائے۔

گدھوں اور ان تمام چیزوں کا، جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو، حکم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اس قول کے عموم میں داخل ہیں : (فمن يعمل مِثقال ذرة خيرًا يَره، ومن يعمل مِثقال ذرة شرًا يره)۔

اس آیت میں نیک کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اور برا کام کرنے سے ڈرایا گیا ہے، خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

التصنيفات

اخروی زندگی, زکوۃ کی فرضیت اور اسے نہ دینے والے کا حکم, وقف