اے چچا جان، آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، اس کلمہ کی بنیاد پر میں اللہ کے یہاں آپ کے حق دلیل پکڑوں گا۔

اے چچا جان، آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، اس کلمہ کی بنیاد پر میں اللہ کے یہاں آپ کے حق دلیل پکڑوں گا۔

سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت ان کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ نے فرمایا : "اے چچا جان، آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، اس کلمہ کی بنیاد پر میں اللہ کے یہاں آپ کے حق دلیل پکڑوں گا۔" یہ سن کر ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ نے کہا : کیا تم عبدالمطلب کا مذہب چھوڑ دوگے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ کلمہ پیش کرتے رہے اور دونوں اپنی بات دہراتے رہے۔ بالآخر ابو طالب نے کہہ دیا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ اس طرح لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا۔ راوی کہتا ہے : لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا، جب تک مجھے روک نہ دیا جائے"۔ چنانچہ اسی پس منظر میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ} [التوبة : 113] (نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں، اگرچہ وه رشتہ دار ہی ہوں)۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ابو طالب کے بارے میں نازل فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرکے فرمایا : {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ} [القصص: 56] (بلاشبہ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے)۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

ابو طالب حالت نزع میں تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس آئے اور ان سے کہا : چچا جان! آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیں۔ اس کلمہ کی بنیاد پر میں اللہ کے یہاں آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ یہ سن کر ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ نے کہا : ابو طالب! کیا تم اپنے باپ عبد المطلب کا دین چھوڑ دو گے؟ وہ مذہب دراصل بت پرستی کا مذہب تھا۔ دونوں ان سے بات کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے ان سے آخر میں کہہ ہی دیا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر چل کر اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ یعنی شرک اور بت پرستی کے مذہب پر۔ یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں آپ کے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا، جب تک میرا رب مجھے منع نہ کر دے۔ چنانچہ اسی پس منظر میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : "نبی کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں، اگرچہ وه رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں"۔ [سورہ توبہ : 113] اسی طرح ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: "آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے". [سورہ قصص : 56] آپ جسے راہ حق پر چلانا چاہیں، اسے راہ حق پر نہیں چلا سکتے۔ آپ کا کام صرف پہنچا دینا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے حق کی راہ پر چلاتا ہے۔

فوائد الحديث

مشرکوں کے حق میں مغفرت طلب کرنے کی حرمت، چاہے وہ کتنے ہی قریبی رشتے دار کیوں نہ ہوں اور ان کا عمل اور احسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔

آبا و اجداد اور اکابرین کی تقلید اہل جاہلیت کی روش ہے۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا کمال شفقت اور لوگوں کی دعوت و ہدایت کے تئیں آپ کا حرص۔

اس بات کا دعوی کرنے والوں کی تردید کہ ابو طالب مسلمان ہو گئے تھے۔

اعمال کا دار و مدار خاتموں پر ہے۔

نفع حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے لو لگانے کا بطلان۔

جس نے علم، یقین اور اعتقاد کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہہ دیا، وہ مسلمان ہوگیا۔

برے ساتھیوں کا نقصان۔

لا الہ الا اللہ کے معنی ہيں؛ بتوں، اولیا اور اللہ کے نیک بندوں کی عبادت سے دامن بچانا اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا۔ مشرکین بھی کلمۂ توحید کے اس معنی کو سمجھتے تھے۔

مشرک مریض کی عیادت جائز ہے، جب اس کے مسلمان ہونے کی امید ہو۔

راہ حق پر گام زن ہو جانے کی توفیق دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کام کسی اور سے نہیں ہو سکتا۔ رسول کا کام صرف راہ بتا دینا اور پہنچا دینا ہے۔

التصنيفات

قرآن کی تفسیر, دعوت الی اللہ