مستقبل میں ایسے حکمراں سامنے آئیں گے، جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گے اور کچھ برے۔ ایسے میں جو ان (کے برے کاموں) کو برا جانے گا، وہ گناہ سے بری رہے گا اور جو ان کے برے…

مستقبل میں ایسے حکمراں سامنے آئیں گے، جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گے اور کچھ برے۔ ایسے میں جو ان (کے برے کاموں) کو برا جانے گا، وہ گناہ سے بری رہے گا اور جو ان کے برے کاموں کو برا کہے گا، وہ سلامت رہے گا۔ لیکن جو (ان کے برے کاموں پر) مطمئن رہے گا اور ان کی پیروی کرے گا، (وہ ہلاکت میں پڑے گا۔)

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "مستقبل میں ایسے حکمراں سامنے آئیں گے، جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گے اور کچھ برے۔ ایسے میں جو ان (کے برے کاموں) کو برا جانے گا، وہ گناہ سے بری رہے گا اور جو ان کے برے کاموں کو برا کہے گا، وہ سلامت رہے گا۔ لیکن جو (ان کے برے کاموں پر) مطمئن رہے گا اور ان کی پیروی کرے گا، (وہ ہلاکت میں پڑے گا۔)" لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : "نہیں، جب تک کہ وہ نماڑ پڑھتے رہیں۔"

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ ہماری حکمرانی کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے گی، جن کے کچھ کام شریعت کے مطابق ہونے کی وجہ سے ہمیں صحیح لگیں گے اور کچھ کام شریعت مخالف ہونے کی وجہ سے ہمیں غلط لگیں گے۔ اس طرح کے حالات میں جو شخص ان کے غلط کاموں کو اپنے دل سے برا جانے گا اور اس حیثیت میں نہیں ہوگا کہ ان کی تردید کر سکے، تو وہ گناہ اور نفاق سے بری مانا جائے گا۔ اس کے برخلاف جس کے پاس ہاتھ سے روکنے یا زبان سے تردید کرنے کی طاقت ہوگی اور وہ اپنی ذمے داری ادا کرے گا، تو وہ گناہ کرنے اور اس میں شریک ہونے سے محفوظ رہے گا۔ لیکن جو ان کے ان برے کاموں سے مطمئن رہے گا اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان گناہوں میں شریک ہوگا، وہ انہی کی طرح ہلاکت کا شکار ہو جائے گا۔ پھر صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا ہم اس طرح کے حکمرانوں سے جنگ نہ کریں، تو آپ نے ان کو ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ نہیں، ایسا اس وقت تک نہ کرنا، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔

فوائد الحديث

محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اللہ کے نبی ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے مستقبل میں سامنے آنے والی کچھ غیبی باتوں کی پیشین گوئی فرمائی اور وہ باتیں ہو بہو اسی طرح سامنے آبھی گئیں، جس طرح آپ نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔

غلط کام سے نہ تو مطمئن ہونا جائز ہے اور نہ اس میں شریک ہونا۔ بلکہ اس کا انکار کرنا واجب ہے۔

جب حکمراں شریعت مخالف کام کرنے لگیں، تو ان کاموں میں ان کی اطاعت جائز نہيں ہے۔

مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہيں ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں فساد برپا ہوگا، خوں ریزی ہوگی اور امن و شانتی کا ماحول ختم ہوگا۔ لہذا نافرمان حکمرانوں کے غلط رویوں کو برداشت کرنا اور ان کی اذیتوں پر صبر کرنا اس سے کہیں زیادہ آسان ہے۔

نماز کی بڑی اہمیت ہے۔ نماز کفر اور اسلام کے درمیان امتیاز کرنے والی چیز ہے۔

التصنيفات

امام کے خلاف بغاوت