بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ تعالیٰ…

بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا، جس کا نام عفیر تھا۔ اسی دوران آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو، ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔‘‘

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب کہ اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ اپنے ان موحد بندوں کو عذاب نہ دے، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ پھر معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ دے دوں، تاکہ وہ اس فضل وکرم کو جان کر خوش ہوسکیں؟ لیکن آپ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کردیا، اس خوف سے کہ کہیں لوگ اس پر توکل کرکے بیٹھ نہ رہیں۔

فوائد الحديث

اللہ تعالی کے اس حق کی وضاحت جو اللہ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ بندے اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

اللہ تعالی پر بندوں کے اس حق کی وضاحت، جو اللہ نے اپنے فضل و انعام کے طور پر اپنی ذات پر واجب کیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت میں داخل کرے اور عذاب سے محفوظ رکھے۔

اس حدیث میں ان موحد بندوں کے لیے بڑی عظیم بشارت ہے، جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے کہ ان کی جاے قرار جنت ہے۔

معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی موت سے قبل یہ حدیث اس خوف سے بیان کر دی کہ کہیں وہ کتمان علم کے جرم میں نہ مبتلا ہو جائیں۔

اس بات کی تنبیہ کہ کچھ احادیث کچھ لوگوں کے سامنے بیان نہ کی جائیں، اس خوف سے کہ کہیں وہ ان کے معانی کا ادراک نہ کر سکیں۔ لیکن یہ بات ان احادیث کے ساتھ خاص ہے جو نہ تو کسی عمل پر مشتمل ہیں اور نہ ان میں شریعت کی حدود بیان کی گئی ہیں۔

گناہ گار موحد بندے اللہ کی مشیت کے ماتحت ہوں گے۔ اگر اللہ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو انہیں معاف کردے گا اور بالآخر جنت میں داخل کرے گا۔

التصنيفات

توحیدِ اُلوہیت, توحید کے فضائل