’’نیکی تو اچھا اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ ناگوار ہو کہ لوگ اس سے باخبر ہوں‘‘۔

’’نیکی تو اچھا اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ ناگوار ہو کہ لوگ اس سے باخبر ہوں‘‘۔

نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’نیکی تو اچھا اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ ناگوار ہو کہ لوگ اس سے باخبر ہوں‘‘۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی حسن اخلاق ہے۔ اللہ کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ تقوی اختیار کیا جائے اور مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ ان کی اذیتوں کو برداشت کیا جائے، غصہ کم کیا جائے، ہنس کر ملا جائے، اچھی بات کی جائے، صلہ رحمی کی جائے، بات مانی جائے، لطف آمیز برتاؤ کیا جائے، حسن سلوک کے ساتھ زندگی گزاری جائے اور اچھی صحبت رکھی جائے۔ جب کہ گناہ ایسی مشتبہ چيز ہے، جو دل میں کھٹکے، اس سے دل مطمئن نہ ہو، بار بار یہ شک اور اندیشہ دل میں آتا رہے کہ کہیں یہ گناہ تو نہیں ہے اور آپ اسے اچھے، نیک اور کامل لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا چاہیں۔ کیوں کہ فطری طور پر انسان کا نفس یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اچھی باتوں کو ہی جانیں۔ لہذا اگر آپ کسی بات سے لوگوں کی آگاہی کو ناپسند کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ ہے اور اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔

فوائد الحديث

اعلی اخلاق سے آراستہ ہونے کی ترغیب، کیوں کہ حسن خلق کا شمار نیکی کے بڑے کاموں میں ہوتا ہے۔

ایک مومن کو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے میں دقت نہيں ہوتی۔ کیوں کہ وہ اپنے دل میں موجود نور کی وجہ سے حق کو پہچان لیتا ہے اور باطل سے گھٹن محسوس کرتا اور اس کی نکیر کرتا ہے۔

گناہ کی ایک علامت یہ ہے کہ دل اس سے بے چین و پریشان رہے اور دل کو یہ گوارہ نہ ہو کہ لوگ اسے جان جائيں۔

سندھی کہتے ہیں : یہ بات ان مشتبہ امور کے بارے میں کہی گئی ہے، جن کے بارے میں لوگوں کو پتہ نہيں ہوتا کہ وہ نیکی ہیں یا گناہ۔ ورنہ شریعت میں جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے، وہ نیکی کے کام ہیں اور جن باتوں سے روکا گيا ہے، وہ گناہ کے کام ہيں۔ ان دونوں طرح کے کاموں میں دل سے فتوی پوچھنے اور اس کا اطمینان جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس حدیث میں مخاطب فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگ ہيں۔ ایسے الٹے دل والے لوگ نہيں، جو بھلے برے کے اندر فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہيں۔

طیبی کہتے ہيں: کسی نے کہا ہے : اس حدیث میں آئے لفظ 'البر' (نیکی) کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہيں۔ کہیں اس کے معنی ایسے کام کے بیان کیے گئے ہيں، جس سے نفس اور دل مطمئن ہو۔ کہیں ایمان کے بتائے گئے ہیں۔ کہيں ایسے عمل کے بتائے گئے ہیں جو آپ کو اللہ کے قریب کر دے۔ جب کہ یہاں حسن اخلاق کے بتائے گئے ہیں اور حسن اخلاق کی تفسیر اذیت کے وقت تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرنے، غصہ کم کرنے، ہنس کر ملنے اور خوش کلامی سے کی گئی ہے۔ ویسے یہ سارے معانی ایک دوسرے سے قریب ہی ہيں۔

التصنيفات

اخلاقِ حمیدہ/ اچھے اخلاق, دل کے اعمال