”نہ (ابتداءً) کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔ جو دوسرے کا نقصان کرے گا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جو دوسرے کو مشقت میں ڈالے گا، اللہ…

”نہ (ابتداءً) کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔ جو دوسرے کا نقصان کرے گا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جو دوسرے کو مشقت میں ڈالے گا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا‘‘۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”نہ (ابتداءً) کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔ جو دوسرے کا نقصان کرے گا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جو دوسرے کو مشقت میں ڈالے گا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا‘‘۔

[صحیح] [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ خود اپنے نفس کو اور دوسروں کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچانے سے بچنا ضروری ہے۔ نہ تو خود کو اذیت دینا جائز ہے اور نہ کسی اور کو اذیت دینا جائز ہے۔ دونوں ہی باتیں ناجائز ہيں۔ کسی کے لیے بھی ضرر کے مقابلے میں ضرر پہنچانا جائز نہيں ہے۔ کیوں کہ ضرر کا ازالہ ضرر کے ذریعے قصاص کے علاوہ کہیں اور جائز نہيں ہے، اور یہ بھی اس وقت جائز ہے جب ظلم وتعدی نہ ہو۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ جو شخص لوگوں کو نقصان پہنچائے گا، اسے خود نقصان کا شکار ہونا پڑے گا اور جو شخص لوگوں کو مشقت میں ڈالے گا، اسے خود مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

فوائد الحديث

جتنا نقصان پہنچایا گیا ہو اس سے زیادہ بدلہ لینا جائ‏ز نہيں ہے۔

اللہ نے اپنے بندوں کو کسی ایسے کام کا حکم نہيں دیا ہے، جو ان کے لیے نقصان دہ ہو۔

قول، فعل یا ترک کے ذریعے نہ کسی کو بلاوجہ ضرر پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے میں ضرر پہنچانا جائز ہے۔

انسان کو جزا اسی جنس کی دی جاتی ہے، جس جنس کی اس کا عمل رہتا ہے۔ چنانچہ جو دوسرے کا نقصان کرے گا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جو دوسرے کو مشقت میں ڈالے گا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا۔

شریعت کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ ضرر کو زائل کیا جائے گا۔ لہذا شریعت ضرر کو قبول نہيں کرتی، بلکہ اسے رد کرتی ہے۔

التصنيفات

فقہی اور اصولی قواعد