إعدادات العرض
میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔
میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے تکیہ لگائے بیٹھے شخص۔ چنانچہ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ’’(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔‘‘ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!‘‘ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امیروں سے صدقہ لے کر ہمارے غریبوں پر تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا: میں اس (شریعت) پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ میں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔
الترجمة
العربية English မြန်မာ Svenska Čeština ગુજરાતી አማርኛ Yorùbá Nederlands Español Bahasa Indonesia ئۇيغۇرچە বাংলা Türkçe Bosanski සිංහල हिन्दी Tiếng Việt Hausa മലയാളം తెలుగు Kiswahili ไทย پښتو অসমীয়া Shqip دری Ελληνικά Български Fulfulde Italiano ಕನ್ನಡ Кыргызча Lietuvių Malagasy Română Kinyarwanda Српски тоҷикӣ O‘zbek नेपाली Moore Kurdî Wolof Soomaali Français Oromoo Azərbaycan Tagalog Українська தமிழ் bm Deutsch ka Português mkالشرح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: دریں اثنا کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص اونٹ پر سوار ہوکر داخل ہوا اور اونٹ کو بٹھاکر باندھ دیا۔ پھر صحابۂ کرام سے دریافت کیا: تم میں محمد کون ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے شخص جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ سے اس شخص نے عرض کیا: اے عبد المطلب کے فرزند! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا: میں نے تمہاری بات سن لی۔ سوال کرو میں جواب دوں گا۔ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں آپ سے کچھ سوالات کرنے والا ہوں اور سوال کرنے میں سخت لہجہ اختیار کروں گا۔ اس لیے آپ دل میں مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ یعنی آپ مجھ پر غصہ نہ کریں اور نہ میرے سوال سے تنگ ہوں۔ آپ نے عرض کیا: جو چاہے پوچھو۔ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ یعنی فرض نمازیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امیروں سے صدقہ لے کر ہمارے فقیروں پر تقسیم کریں؟ یعنی زکاۃ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ ضمام نے بالآخر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ پھر اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضمام بن ثعلبہ ہیں اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتے ہیں۔فوائد الحديث
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شخص آپ (کی سادگی کے سبب) آپ کے درمیان اور صحابہ کے درمیان تفریق نہیں کر سکا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق، سائل کا جواب دینے میں آپ کی نرمی وشفقت اور یہ پیغام کہ جواب دینے کا طریقہ اگر اچھا ہو تو یہ دعوت کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔
سفید اور سرخ رنگ اور لمبے اور چھوٹے قد اور اس طرح کے دیگر ایسے اوصاف بیان کرکے انسان کی شناخت کرنا جائز ہے، جن سے عیب جوئی مقصود نہ ہو، بشرطے کہ ایسا اس انسان پر ناگوار نہ گزرے۔
ضرورت کے پیش نظر کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے۔
اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں آیا ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ اس وقت تک حج فرض نہ ہوا ہو۔
صحابۂ کرام کے اندر لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی شدید تڑپ پائی جاتی تھی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شخص اسلام لاتے ہی اپنی قوم کو دعوت دینے کی فکر کرنے لگا۔