إعدادات العرض
1- اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ان خیالات کو معاف کردیا، جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں، جب تک ان پر عمل نہ کرلیں یا زبان سے ادا نہ کر دیں۔
2- نہیں، یہاں تک کہ دوسرا یعنی شوہرِ ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا
3- تین کام ایسے ہیں کہ انھیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں، ان کا اعتبار ہو گا؛ نکاح، طلاق اور رجعت۔
4- ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں، جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، نہ اُسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو اور نہ اُسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو۔
5- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حائضہ تھیں، طلاق دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ ﷺاس سے بہت خفا ہوئے۔
6- اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں۔
7- کیا تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، تم اس وقت تک اس کے پاس نہیں جاسکتی، جب تک تم اس کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمھارا مزہ نہ چکھ لے۔
8- کتاب کی میعاد گزر گئی (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو۔
9- ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو۔
10- عہد رسالت مآبﷺ اور ابو بکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہیے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔
11- عبد بن یزید نے جو رُکانہ اور اس کے بھائیوں کا باپ تھا ـــــــ اُم رکانہ کو طلاق دے دی اور ایک عورت جو مزینہ کے قبیلے میں سے تھی اس سے نکاح کیا، وہ عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور بولی یا رسول اللہﷺ! ابو رکانہ میرے کسی کام کے نہیں سوائے اس بال کے برابر۔
12- تم نے سنت کے خلاف طلاق دی ہے اور سنت کے خلاف رجعت کی ہے، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔
13- غلام کی آزاد عورت کو طلاق دو طلاقیں ہیں اور اس عورت کی عدت تین حیض ہے جب کہ آزاد کی لونڈی کو طلاق دو طلاقیں ہیں اور لونڈی کی عدت دو حیض ہے۔