جب دو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مد مقابل آجائیں، تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہوں گے

جب دو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مد مقابل آجائیں، تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہوں گے

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : "جب دو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مد مقابل آجائیں، تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔" میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! یہ شخص تو قاتل ہے (اس لیے جہنمی ہوا)، مقتول کا کیا قصور ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ بھی اپنے مد مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی ﷺ بتا رہے ہيں کہ جب دو مسلمان اپنے اپنے ہاتھ میں تلوار لے کر ایک دوسرے کے مد مقابل آ جائیں اور دونوں ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ ہوں، تو قاتل اپنے بھائی کا قتل کرنے کی وجہ سے جہنمی ہوگا۔ صحابہ کو حدیث میں کہی گئی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ چنانچہ اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا کہ وہ جہنمی اس لیے ہوگا کہ وہ بھی اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ تھا اور وہ اپنے ارادے میں کام یاب اس لیے نہيں ہو سکا کہ اس کا مد مقابل اپنے ارادے میں کام یاب ہو گیا اور اس پر سبقت لے گیا۔

فوائد الحديث

دل سے گناہ کا پختہ ارادہ کرنے والا اور اس کے اسباب کو بروئے کار لانے والا سزا کا مستحق ہے۔

مسلمانوں کو آپسی لڑائی سے گریز کی سخت تاکید کی گئی ہے اور اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

حق کی بنیاد پر مسلمانوں کے بیچ ہونے والی لڑائی اس وعید کے دائرے میں نہيں آئے گی۔ مثلا باغیوں اور فساد برپا کرنے والوں سے لڑائی۔

کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو محض کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے کافر نہيں ٹھہرایا جائے گا، کیوں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے باہم لڑنے والے دو لوگوں کو مسلمان کہا ہے۔

جب دو مسلمان کسی بھی ایسے ہتھیار کے ساتھ آمنے سامنے ہو جائیں، جس سے جان لی جا سکتی ہو اور ان میں سے ایک شخص دوسرے شخص کی جان لے لے، تو جان لینے والے اور جان سے ہاتھ دھونے والا دونوں جہنمی ہوں گے۔ اس حدیث میں تلوار کا ذکر محض مثال کے طور پر ہوا ہے۔

التصنيفات

دل کے اعمال, گناہوں کی مذمت