إعدادات العرض
”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ…
”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔
[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Kurdî Hausa Português മലയാളം తెలుగు Kiswahili தமிழ் မြန်မာ Deutsch 日本語 پښتو Tiếng Việt অসমীয়া Shqip Svenska Čeština ગુજરાતી አማርኛ Yorùbá Nederlands ئۇيغۇرچە සිංහල ไทย دری Fulfulde Magyar Italiano ಕನ್ನಡ Кыргызча Lietuvių or Română Kinyarwanda Српски O‘zbek Moore नेपाली тоҷикӣ Oromoo Wolof Soomaali Malagasy Български Українська Azərbaycan ქართული bm Македонскиالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس شخص کے لیے بد دعا کی ہے، جو مسلمانوں کی کوئی ذمے داری ہاتھ میں لے، وہ ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی، عام ہو یا خاص، پھر لوگوں کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرنے کی بجائے ان کو مشقت میں ڈالے۔ اس طرح کے آدمی کے حق میں آپ نے بد دعا یہ کی ہے کہ اللہ اسے بھی مشقت میں ڈالے، تاکہ اسے اسی نوعیت کا بدلہ مل جائے، جس نوعیت کا اس کا عمل رہا ہے۔ جب کہ ذمے داری ملنے کے بعد لوگوں کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرنے والے اور ان کے ساتھ آسانی کرنے والے کے حق میں یہ دعا کی ہے کہ اللہ اس کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرے اور اس کا کام آسان کر دے۔فوائد الحديث
مسلمانوں کی کوئی ذمے داری ہاتھ میں لینے والے پر جہاں تک ہو سکے نرمی بھرا سلوک کرنا واجب ہے۔
اللہ بندے کو جزا اسی نوعیت کی دیتا ہے، جس نوعیت کا اس کا عمل رہا ہوتا ہے۔
نرمی اور سختی کی کسوٹی قرآن اور حدیث ہے۔