إعدادات العرض
1- جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ: تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں۔
2- وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔
3- نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کو چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے۔
4- میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔
5- اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تیز رفتاری نیکی نہیں ہے۔
6- رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی ،پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔
7- رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھے (ذی الحجہ) کی صبح کو تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے (حج کو) عمرہ بنالیں۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! (عمرہ کر کے ) ہمارے لیے کیا چیز حلال ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی۔
8- پانچ جانور ايسے ہیں جو موذی ہیں اور ان کو حرم میں بھی مار ڈالنا چاہیے: کوّا، چیل، بچھو ،چوہا اور کاٹنے والا کتّا۔
9- حجۃ الوداع میں مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرایا گیا تھا اور میں اس وقت سات سال کا تھا۔
10- رسول اللہ ﷺ اونٹ پر حج کے لیے تشریف لے گئے اور اسی پر آپ ﷺ کا سامان بھی لدا ہوا تھا۔
11- عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) زمانہ حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی کہ ’’ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ‘‘۔(سورۂ بقرہ:198)۔ ترجمہ: تم پر اپنے رب کا فضل (رزق، ذرائع معاش) تلاش کرنے میں کوئی گناه نہیں۔
12- رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔
13- رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ جب مکہ میں داخل ہو تے تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔
14- تمتع کی آیت نازل ہوئی یعنی حج تمتع کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر حج تمتع کی منسوخی پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع فرمایا۔
15- میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ:تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے) یا کسی (اونٹ یا گائے وغیرہ کی) قربانی میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔
16- اللہ کے رسول ﷺ سوموار اور جمعرات کا روزہ خاص اہتمام سے رکھتے تھے۔